Monday 12 October 2009

Attack on GHQ and ban on Doubling on Motor-cycles

جی ایچ کیو پر حملہ اور ڈبل سواری پر پابندی
جب پرویز مشرف کی روح نے داماد مشرق کے جسم میں حلول کیا تو عوام نے اچھی خبر کا انتظار کرنا چھوڑ دیا ِ حالات ایسے ہو گئے کہ اچھی خبر کی امید رکھنا بھی امید کے خلاف ہو گیا ِ تاہم اتنا ضرور تھا کہ اگر اچھی خبر کی امید نہ تھی تو کسی نے یہ بھی نہ سوچا تھا کہ چند سر پھرے خود ساختہ مجاہدین اسلام عساکر پاکستان کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ِ لیکن، افسوس جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ دس اکتوبر کو ہو گیا ِ کیا اب ہمیں ہر انہونی کو ہونی تسلیم کر لینے کی عادت ڈال لینی چاہییے؟
اس بات کی آگہی اہم ہے کہ یہ حملہ کس نے اور کیوں کروایا ؟ لیکن میرے نزدیک یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ دہشت گرد جی ایچ کیو پر حملہ کرنے میں کامیاب کیوں ہونے دیئے گئے ؟ آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ آسان ہے اور نہ ہی بچوں کا کھیل ِ کیا قومی سلامتی پر مامور آنکھیں سو رہی تھیں یا کیری لوگر بل کے شور کے بعد آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے؟ خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب پولیس نے آرمی ہیڈ کوارٹرز پر ممکنہ حملے کے بارے میں پندرہ جولائی کو ہی آگاہ کر دیا تھا ۔ تو کیا جی ایچ کیو پر حملے کا مطلب ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کی سو فیصد ناکامی کے سوا کیا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ؟ رحمٰن ملک صاحب سے کوئی پوچھے کہ اس حملے کا الزام بھارت پر لگانے سے کیا ان کے دامن سے یہ داغ مٹ سکتا ہے کہ بحیثیت سیکیورٹی ایڈوائزر بینظیر بھٹو کی جان بچانے میں ناکامی کے بعد اب بطور وزیر داخلہ بھی وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے؟ زرداری صاحب کی تو بات ہی نہ کریں ۔ یہ کیا کم ہے کہ اس منحوس سمے وہ اس ملک میں موجود تھے

اگر کوئی تعریف کے قابل ہے تو صرف وہ جوان ہیں جو دہشت گردوں کی راہ میں بارودی سرنگوں سے بھی خطرناک ثابت ہوئے ۔ تحسین کے قابل ہیں اور بلا شبہ ہیں آپریشن جانباز میں حصہ لینے والے کامانڈوز اور ان کا کمانڈنگ آفیسر جنہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس آپریشن کو کامیابی سے مکمل کر کے سیاسی اور فوجی قیادت کو دہشت گردوں کی بلیک میلنگ سے بچا لیا ۔ انڈیا کی سیکیورٹی فورسز کو پچھلے سال ممبئے میں ایسا ہی ایک آپریشن مکمل کرنے میں بہتر گھنٹے لگ گئے تھے۔

پاک فوج نے سوات میں آپریشن کے بعد ایک بار پھر ان عناصر کو بری طرح مایوس کیا ہے جو سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاک فوج کی آپریشنل اور پروفیشنل صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے ۔ امید ہے کہ دنیا کو اب یہ یقین آ گیا ہو گا کہ جب پاکستان کا آرمی چیف یہ کہتا ہے کہ “ہم ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحییت رکھتے ہیں“ تو اس کا مطلب واقعی یہی ہوتا ہے ۔

دہشت گردی کے مستقبل کے فیصلہ کن لمحات شائد اب آ ہی چکے ہیں ۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے نگہبانوں نے ایک بار پھر قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ پاکستان کا دفاع آہنی ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ ان فیصلہ کن لمحات میں ہماری حکومت ڈبل سواری پر پابندی لگانے کے علاوہ بھی کچھ کر پائے گی!

Wednesday 7 October 2009

From Pakistan to Masaylstan

پاکستان سے مسائلستان تک


قائد اعظم نے جس خطہء ارض کو پاکستان بنایا تھا سیاستدانوں، مولویوں، جرنیلوں اور جاگیرداروں نے اسی پاک سر زمین کو مسائلستان بنا دیا ہے ِ پاکستان کو در پیش مسائل کی فہرست بنانے کے لئے آکسفورڈ یا ہارورڈ یونیورسٹی سے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ِ آپ آنکھیں بند کر کے جس برائی اور بیماری کا نام لیں گے وہ پاکستان میں موجود ہو گی ِ پیپلز پارٹی کے عہد حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا ِ لگتا ہے کہ آج پی پی پی کی ہی حکومت میں پاکستان کا نیا نام مسائلستان بھی رکھ دیا جائے گا ِ یوں سابقہ مرد اول اور موجودہ صدر مملکت پاکستان کے آخری صدر اور مسائلستان کے بانی کی حیثیت سے تاریخ میں امر ہو جائیں گے


معاشی اور سیاسی ماہر کے طور ہر اپنی پہچان بنانے کے لیے اصطلاحات اور مشکل الفاظ کی بھرمار سے پاکستان کو درپیش مسائل کی ایک لمبی بلکہ نہ ختم ہونے والی فہرست اور ان کے حل کے لئے مبہم اور ناقابل عمل تجاویز پر مشتمل ایک لمبی چوڑی اور بے مقصد رپورٹ بھی تیار کی جا سکتی ہے ِ ایسا کرنے سے وفاقی مشیر بننے یا زرداری صاحب کی قربت کے امکانات بھی خاصے روشن ہو سکتے ہیں کیونکہ آج کی تاریخ میں مشیر کا رتبہ وہی پا سکتا ہے جس کے اپنے آنکڑے صاف نہ ہوں اور قوم کو درپیش مسائل کے حل کو کھوج اس سے بہتر کون لگا سکتا ہے جو قوم کی خدمت کے درد میں اپنی بیوی کے قاتلوں کا کھرا پہچاننا بھول جائے ِ تو صاحبو، اگر پاکستان کے ٹھیکیداروں ، چوہدریوں ، شریفوں، اور زرداریوں کی بجائے ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسئلہ صرف ایک ہے ِ صرف ایک
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم کا مسئلہ صرف ایک کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں فیملی پلاننگ والے بھی دو بچوں کی چھوٹ تو دیتے ہی ہیں مختصر ترین الفاظ میں ہماری پرابلم صرف یہ ہے کہ ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جو ہمارے کرنے کا نہیں ہوتا اور جو کام ہمیں نہیں کرنا چاہیے وہ کام کرنے سے ہمیں امریکہ بھی نہیں روک سکتا ِ اب دیکھ لیں چوہدری آصف شریف صاحب صدر پاکستان بن بیٹھے ہیں ِ چوہدری نثار کو اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری ملی لیکن وہ نواز شریف کی ترجمانی پہ تلے بیٹھے ہیں ِ قوم کی اکثریت نواز شریف کو اپنا راہبر مانتی ہے اور نواز شریف صاحب کو بس اپنی باری کا انتظار ہے ِ امریکا میں ہمارا امریکی سفیر ان لوگوں کے پاسپورٹوں پر پاکستانی ویزے کے ٹھپے لگاتا ہے جنہیں ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں پاکستان کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں یعنی اوپر سے لے کر نیچے اور دائیں سے بائیں تک کوئی بھی تو نہیں جو اپنا کام کر رہا ہو ! ِ


یہ بیماری صرف خواص تک ہی محدود نہیں ِ ہم عوام بھی اسی کھاتے میں ہیںالیکشن کا وقت آتا ہے تو وہ آدمی جو ہمارے جوتوں کے قابل ہوتا ہے ہم اس کو ووٹ دے دیتے ہیں ِ ووٹ ڈالتے ہوئے ہماری نگاہیں اس کالے انگریز کو کھوج رہی ہوتی ہیں جو ہمیں ڈنڈے کے زور پر سیدھا رکھے ِ ہم لٹیروں سے تحفظ کی امید لگا لیتے ہیں ، ڈاکوؤں کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں ، چوروں کو اپنا راہبر بنا لیتے ہیں اور اپنی خراب قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں ، اپنی بداعمالیوں کے نتائج کا ذمہ دار کسی اور کو قرار دے کر اپنا جی ہلکا کر لیتے ہیں ِ بات وہیں پہ آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں اور اگر کچھ نہیں کرتے تو صرف وہ نہیں کرتے جو ہمیں کرنا چاہیے ِ اپنے فرض کی عدم ادائیگی اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہونا ہی ہمارا اصل مسئلہ بلکہ ہمارے مسائل کی ماں بھی ہے


ہم بھی کتنی عجیب قوم ہیں ِ ہم خواب تو دیکھتے ہیں دنیا پر حکمرانی کے لیکن اپنا کام خود کرتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے ِ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ زرداری صاحب اس قوم پر احسان فرما کر پاکستان کا نام تبدیل کر کے مسائلستان رکھ دیں یا پھر امریکہ بہادر سے التجا کریں کہ وہ ہم پر براہ راست اپنی حکومت قائم کر لے
A blog by : Qasir Chaudhry

Sunday 27 September 2009

خادم اعلٰی، فوڈ انسپکٹری سے جمعداری تک




شہباز شریف آج کل پنجاب کے اکلوتے وزیر اعلٰی اور تہمینہ درانی کے انسٹھ سالہ سرتاج ہیں ِ خیر سرتاج تو وہ اپنی کزن نصرت شہباز کے بھی ہیں بلکہ پہلے سے ہیں ِ شادی کے وقت اگر نصرت شہباز نے یہ سوچا تھا کہ شہباز صرف ان کے ہی سرتاج رہیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے غلط سوچا تھا ِ چونکہ ہمیں شہباز شریف سے کوئی خوش فہمی نہیں ہے اس لئے ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں صرف پنجاب کے ہی وزیر اعلٰی نہیں رہیں گے ِ یہ بات شہباز شریف بھی جانتے ہیں اس لئے لاٹھی چارج کی بارش میں بھوکے عوام میں پوری عزت سے آٹا بانٹتے وقت وہ خونی انقلاب کے قدموں کی آہٹ بھی سنتے رہے ِ خونی انقلاب کے قدموں کی چاپ بھوکے جسموں پر پڑنے والی لاٹھیوں کی آواز سے مہیب اور خوفناک شائد نہ ہی ہو

شہباز شریف چاہتے ہیں کہ عوام انہیں پنجاب کا وزیر اعلٰی نہیں بلکہ اپنا خادم اعلٰی سمجھیں ِ اب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ حاکم وقت کی خواہش بھی دوسرے لفظوں میں ایک حکم ہی ہوتی ہے ِ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنے ہی ٹیکس کے پیسے سے، سستا آٹا ڈنڈوں اور دھکوں کے ساتھ حاصل کر کے عوام کو یقین ہو گیا کہ میاں صاحب واقعی بڑے خادم صاحب ہیں ! دوسری طرف پنجاب کے وزیروں کی فوج اور نوکر شاہی کے جرنیلوں نے بھی میاں صاحب کو خادم اعلٰی مان لیا ہے ِ ہاں، کچھ سر پھرے البتہ ہیں جو ابھی تک نہیں مانے ِ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، وہ بھی عنقریب مان جائیں گے، ورنہ میاں صاحب منوانا اچھی طرح جانتے ہیں


اگرچہ شہباز شریف دو خواتین کے شوہر ہیں مگر خدمت کے میدان میں وہ اپنی ‘سوکن‘ برداشت نہیں کر سکتے ِ چنانچہ صوبائی کابینہ کے معزز خدام صاحبان پی سی ہوٹل میں اس انتظار میں ہیں کہ کب بڑے خادم صاحب ان کے حصے کی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں ِ لیکن میاں صاحب کو پنجاب کی فوڈ انسپکٹری کچھ اتنی اچھی لگی کہ وہ بقایا خدمات بھول ہی گئے ِ کچھ دن پہلے جب انہیں یاد آیا کہ لاہور کے خاکروب سالانہ ایک ارب روپے کی تنخواہ ڈکار جاتے ہیں تو میرے دل میں یہ امید جاگ اٹھی ہے کہ اب میاں صاحب خاکروبوں کے چوہدری بن کر سیوا کیا کریں گے ِ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اصل خطرہ اس بات سے ہے کہ وہ لاہور کو ایران کے شہر مشہد کی طرح صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں ِ سالوں پہلے گجرات کے چوہدریوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ گجرات کو پیرس بنا دیں گے ِ آج حال یہ ہے کہ اگر کوئی بارش کے بعد گلیوں میں کشتی چلانے کا دھندا شروع کر دے تو بذات خود گجرات کا چوہدری بن جائے

کیا آپ کبھی ایسے بچے سے ملے ہیں جو بیک وقت ڈاکٹر، مریض، پروفیسر، وکیل، سائنسدان اور فوجی بننا چاہتا ہو

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اللہ کی رضا اور شاہ عبد اللہ کی مدد سے وزیر اعلٰی بننے کے بعد میاں صاحب اپنی باقی خواہشیں بھی پوری کرنا چاہتے ہیں

Is it always good to be the citizen of the only superpower ?

Is it always good to be the citizen of the only superpower ?


I dont think if the busy life of United States gives enough time to its citizens to think if it is always beneficial to be the only superpower in the world. Probably, the answer is ‘not’. Being superpower may be good for some, but certainly not for most of the people, most of the times.

Inhabitants of the cold Scandinavian countries enjoy far more better quality of life than their American counterparts. Let us talk about recent poles in Norway. The headline of a newspapers says; Norway stays with labour and quality of life. One Norwegian professor observes about the election; ” this election, like the three previous ones, was all about schools, higher education, families, healthcare, the elderly and the environment-every thing that touches the quality of life”. After all you get for what you work for. Norwegian people care for a better quality of life and they enjoy the superior quality of life.

Interestingly, issues regarding foreign policy or military deployment in Afghanistan were almost absent from the campaign in Norwegian elections. However, on the other hand, Afghanistan and Iraq were the core issues in the last elections. While living in France, I wonder how the democratic let 22,000 persons die each year only because they lack their medical insurance! In a report, published in Newsweek on September 28, 2009, I learnt that 700,000 people go bankrupt each year due to medical bills in US! It is the only United States, which had the honour of having medical bankruptcies in the developed nations!

Barak Obama, first ( and probably last ) black in the white house, trying to be more ethical by providing the guarantee of health care by introducing new reforms. His efforts, not proved successful yet, pressed a wrong button and a new discussion has started in the US; if any other than a white American can be the president? In other words, only white americans can make it sure that only those citizens are covered by medical care who have hell of the money! I dont know why Obama can not understand that it is a war and american supremacy in the world which matters more than the quality of life of a common american.

Really, to be the citizen of a superpower is not always good! You got to buy guns instead of medicines!


For further details ; http://www.newsweek.com/id/215290


A blog by Qasir Chaudhry
(www.qasir.co.nr)

Saturday 31 January 2009

Welcoming year 2009 in Paris, Part I

An extract from my upcoming travellogue of France!








یہ پیرس ہے ، دنیا کا خوبصورت ترین شہر اور انسانوں کا پرستان ِ بچپن میں پرستان کی کہانیا ں تو ہم سبھی سنتے ہیں لیکن مجھے آج تک کسی ایسے آدمی سے ملنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا جس نے کہانی کو حقیقت بنتے دیکھا ہو ِ کسی شخص کا یہ دعوی سامنے نہیں آیا کہ اس نے پرستان میں گھومتی پھرتی پریوں کے درشن کیے ہیں ِ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ پرستان کی فضاؤں میں اڑتی ہوئی پریوں کی تمنا عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جاتی ہے ِ پرستان کو تو میں نے بھی نہیں دیکھا لیکن پیرستان کو ضرور دیکھا ہے اور پیرستان کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ اگر پرستان حسین ہو گا، مگر پیرستان سے زیادہ نہ ہو گا ِ پرستان کی فضائیں اگر پریوں کی خوشبو سے مہکتی ہیں تو پیرستان کی ہوا کے جھونکے گوریوں کی پوشاک کی پرفیوم چرانے سے باز نہیں آتیں ِ پرستان کی فضاؤں میں اگر پریاں اڑتی ہیں تو پیرستان کی گلیوں میں گوریاں اور کالیاں اس طرح ٹھمک ٹھمک کر چلتی ہیں کہ یہ پنجابی گیت یاد آ جاتا ہے

جتی چم دی مروڑا نیہوں چلدی، ٹور پنجابن دی

مطلب یہ کہ پنجابن کی چال ایسی ہے کہ چمڑے کی جوتی بھی پنجابن کی چال کا بل نہیں سہہ سکتی
ِ
پیرس کی جوتا ساز کمپنیاں گوریوں کی چال کے حساب سے جوتے بناتی ہیں اس لئے آج تک ہمارے پنجابی گیت کی طرح کوئی فرنچ گانا سامنے نہیں آیا ِ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ِ طالب علمی کے زمانے کی بات ہے کہ میرا ایک اٹھارہ سالہ دوست صرف پیدا ہونے کے لئے لاہور گیا تھا ِ شکر کی بات ہے کہ کہنے والے نے پیدا ہونے کے لئے پیرس دیکھنے کی شرط نہیں لگائی ِ ورنہ ، کہنے والے کا تو کچھ نہ جاتا مگر ہماری اچھی خاصی آبادی پیدا ہونے سے محروم رہ جاتی ِ ہاں ، یہ اور بات ہے کہ پیرس قابل دید شہر ہے ِ یہاں ہر گلی میں تاریخ بکھری پڑی ہے ِ چپہ چپہ ماضی سے وابستہ ہے ِ لیکن صاحبو، پیرس میں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کا اپنا ہی مزہ ہے ِ آپس کی بات ہے کہ آج یہ خاکسار اس رات کا رنگ چرانے اور مزے لوٹنے والا ہے


ِ سال 2008 کا سورج اپنی آخری ہچکی لے چکا ہے ِ ٹھیک 110 منٹ کے بعد 2008 ماضی کا حصہ بن جائے گا اور 2009 جنم لے گا ِ اس وقت جبکہ پیرستان کی گوریاں اور کالیاں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیاریوں اور اپنے حسن کو تڑکا لگانے میں مصروف ہیں میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو جا رہا ہوں کہ نئے سال کا استقبال کرتی ہوئی پریوں کا نظارہ آئفل ٹاور سے کیا جائے یا شانزے لیزے کی شاہراہ پر ِ حال یہ ہے کہ شانزے لیزے کا دیو مالائی حسن اپنی طرف کھینچتا ہے تو آئفل ٹاور کا جادو اپنی طرف ِ لیکن یہ الجھن کسی حسینہ کی زلف کے پیچ کی طرح سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ِ آخر جیب سے ایک یورو کا سکہ نکالا ، ہوا میں اچھالا ، اور اس کے واپس میری ہتھیلی میں آنے کے ساتھ ہی فیصلہ ہو گیا ِ جی ہاں ، میں شانزے لیزے جا رہا ہوں ِ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ عالم ارواح سے گستاو آئفل ٹاور کی گھورتی ہوئی آنکھیں یہ کہہ رہی ہیں کہ تم نے میری تخلیق آئفل ٹاور کو نظر انداز کر کے اچھا نہیں کیا ، اب میں بھی تمہارا سفرنامہ نہیں پڑھوں گا ِ مسٹر آئفل سے تو جو کہا سو کہا، لیکن آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آئفل ٹاور نہ جانے پہ پریشان نہ ہوں کیونکہ میں ہوں نا

اگر آپ نے پیرس کے اندر ہی سفر کرنا ہے تو پیسے اور وقت کی بچت کے لحاظ سے میٹرو یعنی زیر زمین ٹرین سروس، لا جواب ہے ِ اگرچہ زیادہ تر یہ زمین کے نیچے نیچے ہی رہتی ہے لیکن کبھی کبھار یہ زمین سے اوپر بھی آ جاتی ہے ِ پیرس میں میٹرو کے علاوہ ٹرام، بس سروس اور لو کل ٹرین کا اچھا خاصا نیٹ ورک ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی ِ تو میں عرض کر رہا تھا کہ شانزے لیزے جانے کے لیے مجھے ایک نمبر میٹرو پکڑنی ہے ِ میں اس وقت جہاں کھڑا ہوں ، وہاں سے میٹرو کا نزدیک ترین شتلے لے ہال ہے ِ یہ دنیا کا سب سے بڑا زیر زمین ٹرین سٹیشن مانا جاتا ہے ِ اس ٹرین سٹیشن کو روزانہ ساڑھے سات لاکھ افراد استعمال کرتے ہیں اور یہاں سے میٹرو کی پانچ جبکہ علاقائی ٹرین کی 3 لائنیں گذرتی ہیں آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ زمین کے نیچے ہی نیچے آٹھ ٹرینوں کے لیے دو طرفہ پلیٹ فارم ہیں ِ یہاں زمین کے اندر ایک اور ہی دنیا آباد ہے
ِ
میں اسٹیشن میں داخل ہو کر میٹرو نمبر ایک کے سٹیشن کی طرف جا رہا ہوں جو یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے ِ جوں جوں میں پلیٹ فارم کے قریب ہوتا جا رہا ہوں عوام کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ِ یعنی عوام جوق در جوق شانزے لیزے کی طرف جا رہے ہیں ِ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر پہلے تو خیال آیا کہ کہیں نئے سال کے موقع پر مفت لنگر کا اہتمام بھی نہ ہو ِ لیکن اب آپ سے کیا پردہ ِ پیرس تو کیا پورے فرانس میں داتا کی نگری ہے نہ بری امام کا دربار ِ ان کی حکومت ہی ان کے لیے سب کچھ ہے ِ پیدائش سے موت تک ، تعلیم سے روزگار تک ، روزگار سے بے روزگاری تک، اور شادی سے رہائش تک آپ جب چاہیں حکومت کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں
ِ
بہرحال، پلیٹ فارم کے بالکل پاس تو یہ حال ہے کہ لوگوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا ہے اور صحیح معنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، پاؤں دھرنا تو بہت دور کی بات ہے ِ خیر، ابھی ایک ٹرین آئی ہے، لوگ اس میں سوار ہو رہے ہیں اور اب جا کر پلیٹ فارم پر جانے کا موقع ملا ہے ِ دو منٹ کے بعد ایک اور ٹرین صاحبہ تشریف لا رہی ہیں جن کا پیٹ انسانوں سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ اس میں سوار ہونا جنرل مشرف کی وردی اتروانے سے آسان نہیں لگ رہا ِ ٹرین کے آٹو میٹک دروازے کھلنے کی دیر ہے کہ عوام الناس یوں لپکی ہے جیسے یورپ میں ہمارے پاکستانی بھائی مفت کی شراب پر لپکتے ہیں ِ اس لمحے جب سب لوگ ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے فرانس کے مہذب شہریوں اور اپنے ہم وطنوں کے درمیاں کوئی فرق نہیں محسوس ہوا ِ بلکہ، میں تو سوچتا ہوں کہ اگر فرانس کی آبادی پاکستان میں منتقل کر دی جائے تو فرانسیسیوں کو پاکستانیوں کے طور طریقے اپنانے میں کپڑے بدلنے سے زیادہ دیر نہیں لگے گی ِ یہ تبدیلی کیوں آئے گی ? آپ اس کا جواب سوچیے، میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ وہی ٹرین جس میں تھوڑی دیر پہلے تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اب مزید سواریوں کو لئے جا رہی تھی ِ اگرچہ اپنے سے پیچھے والے لوگوں کی مہربانی سے میں ٹرین میں کھڑا ہونے کی جگہ تو مل گئی ہے لیکن بالکل آگے کھڑی سواری کو زحمت دئیے بنا سانس نہیں لی جا سکتی ِ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو ہمارا سینہ اور پیٹ پھولتا ہے ِ یہاں، اس میٹرو میں ، جب میں سانس لیتا ہوں ، اور سینہ پھولتا ہے تو آگے کھڑی فرانسیسی حسینہ کی زلفوں کو چومتا ہے اور جذبات کے پٹرول کو دیا سلائی دکھاتا ہے ِ صاحبو، اس حال میں سفر کرنا بہت دل گردے کا کام ہےقربتوں کا یہ عالم کہ ٹمپریچر کی طرح فاصلے بھی کم ہوتے ہوتے منفی ہو چکے ہیں ِ مطلب اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتاؤ، تمہاری دائیں طرف کھڑی حسینہ تم سے کتنے فاصلے پر ہے تو میرا جواب ہو گا، منفی 2 انچ جناب ِ نزدیکیاں اس قدر ہیں کہ کوئی جسمانی راز راز نہیں رہا ِ ایسی معلومات جنہیں حاصل کرنے کے لئے عشاق کو انتظار اور مشقت کے اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، معرفت کی ان گھڑیوں میں اس خاکسار کو بلا آرزو دستیاب ہیں ِ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اس وقت مستنصر حسین تارڑ میری جگہ ہوتے تو دائیں یا بائیں ، آگے یا پیچھے سے کم از کم ایک آدھ حسینہ ان کی مردانہ وجاہت کا تیر کھا کر پھڑک چکی ہوتی

جاری ہے
A blog by Qasir Chaudhry ِ