Saturday 31 January 2009

Welcoming year 2009 in Paris, Part I

An extract from my upcoming travellogue of France!








یہ پیرس ہے ، دنیا کا خوبصورت ترین شہر اور انسانوں کا پرستان ِ بچپن میں پرستان کی کہانیا ں تو ہم سبھی سنتے ہیں لیکن مجھے آج تک کسی ایسے آدمی سے ملنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا جس نے کہانی کو حقیقت بنتے دیکھا ہو ِ کسی شخص کا یہ دعوی سامنے نہیں آیا کہ اس نے پرستان میں گھومتی پھرتی پریوں کے درشن کیے ہیں ِ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ پرستان کی فضاؤں میں اڑتی ہوئی پریوں کی تمنا عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جاتی ہے ِ پرستان کو تو میں نے بھی نہیں دیکھا لیکن پیرستان کو ضرور دیکھا ہے اور پیرستان کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ اگر پرستان حسین ہو گا، مگر پیرستان سے زیادہ نہ ہو گا ِ پرستان کی فضائیں اگر پریوں کی خوشبو سے مہکتی ہیں تو پیرستان کی ہوا کے جھونکے گوریوں کی پوشاک کی پرفیوم چرانے سے باز نہیں آتیں ِ پرستان کی فضاؤں میں اگر پریاں اڑتی ہیں تو پیرستان کی گلیوں میں گوریاں اور کالیاں اس طرح ٹھمک ٹھمک کر چلتی ہیں کہ یہ پنجابی گیت یاد آ جاتا ہے

جتی چم دی مروڑا نیہوں چلدی، ٹور پنجابن دی

مطلب یہ کہ پنجابن کی چال ایسی ہے کہ چمڑے کی جوتی بھی پنجابن کی چال کا بل نہیں سہہ سکتی
ِ
پیرس کی جوتا ساز کمپنیاں گوریوں کی چال کے حساب سے جوتے بناتی ہیں اس لئے آج تک ہمارے پنجابی گیت کی طرح کوئی فرنچ گانا سامنے نہیں آیا ِ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ِ طالب علمی کے زمانے کی بات ہے کہ میرا ایک اٹھارہ سالہ دوست صرف پیدا ہونے کے لئے لاہور گیا تھا ِ شکر کی بات ہے کہ کہنے والے نے پیدا ہونے کے لئے پیرس دیکھنے کی شرط نہیں لگائی ِ ورنہ ، کہنے والے کا تو کچھ نہ جاتا مگر ہماری اچھی خاصی آبادی پیدا ہونے سے محروم رہ جاتی ِ ہاں ، یہ اور بات ہے کہ پیرس قابل دید شہر ہے ِ یہاں ہر گلی میں تاریخ بکھری پڑی ہے ِ چپہ چپہ ماضی سے وابستہ ہے ِ لیکن صاحبو، پیرس میں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کا اپنا ہی مزہ ہے ِ آپس کی بات ہے کہ آج یہ خاکسار اس رات کا رنگ چرانے اور مزے لوٹنے والا ہے


ِ سال 2008 کا سورج اپنی آخری ہچکی لے چکا ہے ِ ٹھیک 110 منٹ کے بعد 2008 ماضی کا حصہ بن جائے گا اور 2009 جنم لے گا ِ اس وقت جبکہ پیرستان کی گوریاں اور کالیاں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیاریوں اور اپنے حسن کو تڑکا لگانے میں مصروف ہیں میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو جا رہا ہوں کہ نئے سال کا استقبال کرتی ہوئی پریوں کا نظارہ آئفل ٹاور سے کیا جائے یا شانزے لیزے کی شاہراہ پر ِ حال یہ ہے کہ شانزے لیزے کا دیو مالائی حسن اپنی طرف کھینچتا ہے تو آئفل ٹاور کا جادو اپنی طرف ِ لیکن یہ الجھن کسی حسینہ کی زلف کے پیچ کی طرح سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ِ آخر جیب سے ایک یورو کا سکہ نکالا ، ہوا میں اچھالا ، اور اس کے واپس میری ہتھیلی میں آنے کے ساتھ ہی فیصلہ ہو گیا ِ جی ہاں ، میں شانزے لیزے جا رہا ہوں ِ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ عالم ارواح سے گستاو آئفل ٹاور کی گھورتی ہوئی آنکھیں یہ کہہ رہی ہیں کہ تم نے میری تخلیق آئفل ٹاور کو نظر انداز کر کے اچھا نہیں کیا ، اب میں بھی تمہارا سفرنامہ نہیں پڑھوں گا ِ مسٹر آئفل سے تو جو کہا سو کہا، لیکن آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آئفل ٹاور نہ جانے پہ پریشان نہ ہوں کیونکہ میں ہوں نا

اگر آپ نے پیرس کے اندر ہی سفر کرنا ہے تو پیسے اور وقت کی بچت کے لحاظ سے میٹرو یعنی زیر زمین ٹرین سروس، لا جواب ہے ِ اگرچہ زیادہ تر یہ زمین کے نیچے نیچے ہی رہتی ہے لیکن کبھی کبھار یہ زمین سے اوپر بھی آ جاتی ہے ِ پیرس میں میٹرو کے علاوہ ٹرام، بس سروس اور لو کل ٹرین کا اچھا خاصا نیٹ ورک ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی ِ تو میں عرض کر رہا تھا کہ شانزے لیزے جانے کے لیے مجھے ایک نمبر میٹرو پکڑنی ہے ِ میں اس وقت جہاں کھڑا ہوں ، وہاں سے میٹرو کا نزدیک ترین شتلے لے ہال ہے ِ یہ دنیا کا سب سے بڑا زیر زمین ٹرین سٹیشن مانا جاتا ہے ِ اس ٹرین سٹیشن کو روزانہ ساڑھے سات لاکھ افراد استعمال کرتے ہیں اور یہاں سے میٹرو کی پانچ جبکہ علاقائی ٹرین کی 3 لائنیں گذرتی ہیں آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ زمین کے نیچے ہی نیچے آٹھ ٹرینوں کے لیے دو طرفہ پلیٹ فارم ہیں ِ یہاں زمین کے اندر ایک اور ہی دنیا آباد ہے
ِ
میں اسٹیشن میں داخل ہو کر میٹرو نمبر ایک کے سٹیشن کی طرف جا رہا ہوں جو یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے ِ جوں جوں میں پلیٹ فارم کے قریب ہوتا جا رہا ہوں عوام کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ِ یعنی عوام جوق در جوق شانزے لیزے کی طرف جا رہے ہیں ِ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر پہلے تو خیال آیا کہ کہیں نئے سال کے موقع پر مفت لنگر کا اہتمام بھی نہ ہو ِ لیکن اب آپ سے کیا پردہ ِ پیرس تو کیا پورے فرانس میں داتا کی نگری ہے نہ بری امام کا دربار ِ ان کی حکومت ہی ان کے لیے سب کچھ ہے ِ پیدائش سے موت تک ، تعلیم سے روزگار تک ، روزگار سے بے روزگاری تک، اور شادی سے رہائش تک آپ جب چاہیں حکومت کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں
ِ
بہرحال، پلیٹ فارم کے بالکل پاس تو یہ حال ہے کہ لوگوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا ہے اور صحیح معنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، پاؤں دھرنا تو بہت دور کی بات ہے ِ خیر، ابھی ایک ٹرین آئی ہے، لوگ اس میں سوار ہو رہے ہیں اور اب جا کر پلیٹ فارم پر جانے کا موقع ملا ہے ِ دو منٹ کے بعد ایک اور ٹرین صاحبہ تشریف لا رہی ہیں جن کا پیٹ انسانوں سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ اس میں سوار ہونا جنرل مشرف کی وردی اتروانے سے آسان نہیں لگ رہا ِ ٹرین کے آٹو میٹک دروازے کھلنے کی دیر ہے کہ عوام الناس یوں لپکی ہے جیسے یورپ میں ہمارے پاکستانی بھائی مفت کی شراب پر لپکتے ہیں ِ اس لمحے جب سب لوگ ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے فرانس کے مہذب شہریوں اور اپنے ہم وطنوں کے درمیاں کوئی فرق نہیں محسوس ہوا ِ بلکہ، میں تو سوچتا ہوں کہ اگر فرانس کی آبادی پاکستان میں منتقل کر دی جائے تو فرانسیسیوں کو پاکستانیوں کے طور طریقے اپنانے میں کپڑے بدلنے سے زیادہ دیر نہیں لگے گی ِ یہ تبدیلی کیوں آئے گی ? آپ اس کا جواب سوچیے، میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ وہی ٹرین جس میں تھوڑی دیر پہلے تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اب مزید سواریوں کو لئے جا رہی تھی ِ اگرچہ اپنے سے پیچھے والے لوگوں کی مہربانی سے میں ٹرین میں کھڑا ہونے کی جگہ تو مل گئی ہے لیکن بالکل آگے کھڑی سواری کو زحمت دئیے بنا سانس نہیں لی جا سکتی ِ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو ہمارا سینہ اور پیٹ پھولتا ہے ِ یہاں، اس میٹرو میں ، جب میں سانس لیتا ہوں ، اور سینہ پھولتا ہے تو آگے کھڑی فرانسیسی حسینہ کی زلفوں کو چومتا ہے اور جذبات کے پٹرول کو دیا سلائی دکھاتا ہے ِ صاحبو، اس حال میں سفر کرنا بہت دل گردے کا کام ہےقربتوں کا یہ عالم کہ ٹمپریچر کی طرح فاصلے بھی کم ہوتے ہوتے منفی ہو چکے ہیں ِ مطلب اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتاؤ، تمہاری دائیں طرف کھڑی حسینہ تم سے کتنے فاصلے پر ہے تو میرا جواب ہو گا، منفی 2 انچ جناب ِ نزدیکیاں اس قدر ہیں کہ کوئی جسمانی راز راز نہیں رہا ِ ایسی معلومات جنہیں حاصل کرنے کے لئے عشاق کو انتظار اور مشقت کے اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، معرفت کی ان گھڑیوں میں اس خاکسار کو بلا آرزو دستیاب ہیں ِ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اس وقت مستنصر حسین تارڑ میری جگہ ہوتے تو دائیں یا بائیں ، آگے یا پیچھے سے کم از کم ایک آدھ حسینہ ان کی مردانہ وجاہت کا تیر کھا کر پھڑک چکی ہوتی

جاری ہے
A blog by Qasir Chaudhry ِ