ایک حقیقت پسند سیاستدان ہونے کی حیثیت سے باراک حسین اوبامہ کی کوشش ہے کہ افغانستان سے باعزت واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔ افغانستان میں افواج کی تعداد میں اضافے اور جاری آپریشنز کے تناظر میں بات کی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنگ کا موجودہ میدان اس لئے سجا ہے کہ اس سے سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کی جا سکے، طالبان کو کمزور کر کے مزاکرات کے میز پر اپنی پوزیشن بہتر کی جا سکے اور یوں ایک واضح ہار کو جیت میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اب زمینی حالات یہ ہیں کہ نہ صرف امریکہ بلکہ نیٹو افواج کی سپلائی لائن بھی پاکستان سے گزرتی ہے ۔ علاوہ ازیں افغانستان سے باہر کا راستہ صرف پاکستان سے ہو کر ہی گذرتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ امریکی مفادات کے حصول کے لئے پاکستان ہر ممکن تعاون کرے ۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ قیمت لگانے کے معاملے میں ہم ہمیشہ ہی کمزور ثابت ہو ئے ہیں
پاک امریکا سٹریٹجک مذاکرات کے بعد امریکہ نے توانائی کے منصوبوں میں تعاون، بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے امداد اور عسکری سازو سامان کی فراہمی کا وعدہ کیا جبکہ ایٹمی تعاون اور کشمیر کے معاملے پر تعاون سے انکار کر دیا۔ خدا لگتی کہیے گا کہ کیا قوموں کے درمیان تعلقات کے نئے عہد کا آغاز کیا اسی کو کہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے نئے عہد سے زیادہ یہ ہیلری اور شاہ محمود قریشی کے درمیان تعلقات کا نیا موڑ لگتا ہے ۔ خدا کرے کہ ہمارے وزیر خارجہ صاحب کو یہ سمجھ آ جائے کہ جیسا نظر آتا ہے ویسا اکثر ہوتا نہیں