Monday 12 October 2009

Attack on GHQ and ban on Doubling on Motor-cycles

جی ایچ کیو پر حملہ اور ڈبل سواری پر پابندی
جب پرویز مشرف کی روح نے داماد مشرق کے جسم میں حلول کیا تو عوام نے اچھی خبر کا انتظار کرنا چھوڑ دیا ِ حالات ایسے ہو گئے کہ اچھی خبر کی امید رکھنا بھی امید کے خلاف ہو گیا ِ تاہم اتنا ضرور تھا کہ اگر اچھی خبر کی امید نہ تھی تو کسی نے یہ بھی نہ سوچا تھا کہ چند سر پھرے خود ساختہ مجاہدین اسلام عساکر پاکستان کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ِ لیکن، افسوس جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ دس اکتوبر کو ہو گیا ِ کیا اب ہمیں ہر انہونی کو ہونی تسلیم کر لینے کی عادت ڈال لینی چاہییے؟
اس بات کی آگہی اہم ہے کہ یہ حملہ کس نے اور کیوں کروایا ؟ لیکن میرے نزدیک یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ دہشت گرد جی ایچ کیو پر حملہ کرنے میں کامیاب کیوں ہونے دیئے گئے ؟ آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ آسان ہے اور نہ ہی بچوں کا کھیل ِ کیا قومی سلامتی پر مامور آنکھیں سو رہی تھیں یا کیری لوگر بل کے شور کے بعد آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے؟ خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب پولیس نے آرمی ہیڈ کوارٹرز پر ممکنہ حملے کے بارے میں پندرہ جولائی کو ہی آگاہ کر دیا تھا ۔ تو کیا جی ایچ کیو پر حملے کا مطلب ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کی سو فیصد ناکامی کے سوا کیا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ؟ رحمٰن ملک صاحب سے کوئی پوچھے کہ اس حملے کا الزام بھارت پر لگانے سے کیا ان کے دامن سے یہ داغ مٹ سکتا ہے کہ بحیثیت سیکیورٹی ایڈوائزر بینظیر بھٹو کی جان بچانے میں ناکامی کے بعد اب بطور وزیر داخلہ بھی وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے؟ زرداری صاحب کی تو بات ہی نہ کریں ۔ یہ کیا کم ہے کہ اس منحوس سمے وہ اس ملک میں موجود تھے

اگر کوئی تعریف کے قابل ہے تو صرف وہ جوان ہیں جو دہشت گردوں کی راہ میں بارودی سرنگوں سے بھی خطرناک ثابت ہوئے ۔ تحسین کے قابل ہیں اور بلا شبہ ہیں آپریشن جانباز میں حصہ لینے والے کامانڈوز اور ان کا کمانڈنگ آفیسر جنہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس آپریشن کو کامیابی سے مکمل کر کے سیاسی اور فوجی قیادت کو دہشت گردوں کی بلیک میلنگ سے بچا لیا ۔ انڈیا کی سیکیورٹی فورسز کو پچھلے سال ممبئے میں ایسا ہی ایک آپریشن مکمل کرنے میں بہتر گھنٹے لگ گئے تھے۔

پاک فوج نے سوات میں آپریشن کے بعد ایک بار پھر ان عناصر کو بری طرح مایوس کیا ہے جو سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاک فوج کی آپریشنل اور پروفیشنل صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے ۔ امید ہے کہ دنیا کو اب یہ یقین آ گیا ہو گا کہ جب پاکستان کا آرمی چیف یہ کہتا ہے کہ “ہم ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحییت رکھتے ہیں“ تو اس کا مطلب واقعی یہی ہوتا ہے ۔

دہشت گردی کے مستقبل کے فیصلہ کن لمحات شائد اب آ ہی چکے ہیں ۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے نگہبانوں نے ایک بار پھر قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ پاکستان کا دفاع آہنی ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ ان فیصلہ کن لمحات میں ہماری حکومت ڈبل سواری پر پابندی لگانے کے علاوہ بھی کچھ کر پائے گی!

No comments:

Post a Comment