Sunday 28 March 2010

Pak-Us Strategic Dialogue and The Beginning of The New Era in Pak-Us relations!

امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا نیا دور ۔ پاکستان کے لئے امریکہ بہادر کا تازہ ترین لولی پوپ


پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ سے قبل مہنگائی اور دہشت گردی کی ماری قوم کو یہ نوید دی جا رہی تھی کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات ایک نئے عہد میں داخل ہونے والے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ کو اپنی گذشتہ نادانیوں کا احساس ہو چکا ہے اور اب امریکہ پاکستان سے تجدید محبت کا طلبگار ہے ۔ مزاکرات کے خاتمے پر ہمارے سمارٹ وزیر خارجہ کو تو بی بی ہیلری کی مسکراہٹیں مل گئیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عملی طور پر قوم کو کس بات کی توقع رکھنی چاہیے ۔

ایک حقیقت پسند سیاستدان ہونے کی حیثیت سے باراک حسین اوبامہ کی کوشش ہے کہ افغانستان سے باعزت واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔ افغانستان میں افواج کی تعداد میں اضافے اور جاری آپریشنز کے تناظر میں بات کی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنگ کا موجودہ میدان اس لئے سجا ہے کہ اس سے سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کی جا سکے، طالبان کو کمزور کر کے مزاکرات کے میز پر اپنی پوزیشن بہتر کی جا سکے اور یوں ایک واضح ہار کو جیت میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اب زمینی حالات یہ ہیں کہ نہ صرف امریکہ بلکہ نیٹو افواج کی سپلائی لائن بھی پاکستان سے گزرتی ہے ۔ علاوہ ازیں افغانستان سے باہر کا راستہ صرف پاکستان سے ہو کر ہی گذرتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ امریکی مفادات کے حصول کے لئے پاکستان ہر ممکن تعاون کرے ۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ قیمت لگانے کے معاملے میں ہم ہمیشہ ہی کمزور ثابت ہو ئے ہیں

پاک امریکا سٹریٹجک مذاکرات کے بعد امریکہ نے توانائی کے منصوبوں میں تعاون، بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے امداد اور عسکری سازو سامان کی فراہمی کا وعدہ کیا جبکہ ایٹمی تعاون اور کشمیر کے معاملے پر تعاون سے انکار کر دیا۔ خدا لگتی کہیے گا کہ کیا قوموں کے درمیان تعلقات کے نئے عہد کا آغاز کیا اسی کو کہتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے نئے عہد سے زیادہ یہ ہیلری اور شاہ محمود قریشی کے درمیان تعلقات کا نیا موڑ لگتا ہے ۔ خدا کرے کہ ہمارے وزیر خارجہ صاحب کو یہ سمجھ آ جائے کہ جیسا نظر آتا ہے ویسا اکثر ہوتا نہیں

Saturday 27 March 2010

The Future of PML-Q and decrease in the votes of PML-N (urdu)




قومی سیاست پر مسلم لیگ ق کا مستقبل

مسلم لیگ کی پیروکار اور پیپلز پارٹی کی مریدین ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ق کی شکست کو چوهدری برادران کی سیاست کی تابوت میں آخری کیل قرار دیتے نهیں تهکتے . لیکهن کیا کسی کے کهنے سے کوا سفید هو جاتا هے؟ کیا آپ کو واقعی لگتا هے که پاکستان کی سیاست سے مسلم لیگ گدهے کے سر سے سینگ کی طرح غائب هو جائے گی؟

مشرف اور اقتدار کی آپس میں علیحدگی کے بعد اگر آصف شریف اور نواز علی زرداری کا گٹھ جوڑ اگر ہوش کے ناخن لیتا تو شائد مستقبل کی سیاست میں مسلم لیگ ق کا کردار میاں شہباز گیلانی کے تندور کے آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتا ۔ لیکن ہوئے تم دشمن جس کے دوست اس کا آسمان کیوں ہو ۔ اب بے چارے چوہدری برادران کا کیا قصور اور کیا فکر جب کہ آصف شریف اور نواز علی زرداری کا جوڑا ہی مسلم لیگ ق کا مردہ زندہ کرنے پہ تلا ہے!

کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم لوگ ایویں ای ہر کاروائی کا ملبی نا حق امریکہ شریف پر ڈال دیتے ہیں وگرنہ ہمارے حکمرانوں کو کسی دشمن کی کیا ضرورت۔ یہ تو خود اپنے پھینکے ہوئے کیلے کے چھلکے سے بار بار پھسلتے رہتے ہیں ۔ محترم آصف شریف صاحب کو تو کرسی کے لالچ نے مار ڈالا ۔ رہے شہباز شریف تو وہ چوہدری پرویز مشرف جیسی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول بیٹھے ۔ زرداری ، گیلانی اور شہباز کی تکون نے گزشتہ دو سالوں میں وہ پھرتیا ں دکھائی ہیں کہ خیبر سے کراچی تک قوم ان سے نجات کے لئے نوافل پڑھ رہی ہے ۔

بظاہر ضمنی انتخابات میں میاں نواز علی زرداری، جو صرف پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں ، کے لئے شانتی ہی شانتی ہے ۔ لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور قیامت کی نظر رکھنے والوں کو ضمنی انتخابات میں میاں صاحب کے لئے سب ہرا ہرا نظر نہیں آتا ۔

ملاحظہ کیجیے بی بی سی کی رپورٹ

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/03/100325_pmln_votes_decreasing_why.shtml

http://www.qmcblog.blogspot.com

Thursday 4 March 2010

‭BBC Urdu‬ - ‮آس پاس‬ - ‮یمن القاعدہ کی نئی جنت؟‬


Yemen now seem to be the new heaven for Al-Qaeda.
Who knows what will be the next!
Or
Which country will come next?





BBC Urdu‬ - ‮آس پاس‬ - ‮یمن القاعدہ کی نئی جنت؟‬

Monday 12 October 2009

Attack on GHQ and ban on Doubling on Motor-cycles

جی ایچ کیو پر حملہ اور ڈبل سواری پر پابندی
جب پرویز مشرف کی روح نے داماد مشرق کے جسم میں حلول کیا تو عوام نے اچھی خبر کا انتظار کرنا چھوڑ دیا ِ حالات ایسے ہو گئے کہ اچھی خبر کی امید رکھنا بھی امید کے خلاف ہو گیا ِ تاہم اتنا ضرور تھا کہ اگر اچھی خبر کی امید نہ تھی تو کسی نے یہ بھی نہ سوچا تھا کہ چند سر پھرے خود ساختہ مجاہدین اسلام عساکر پاکستان کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ِ لیکن، افسوس جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ دس اکتوبر کو ہو گیا ِ کیا اب ہمیں ہر انہونی کو ہونی تسلیم کر لینے کی عادت ڈال لینی چاہییے؟
اس بات کی آگہی اہم ہے کہ یہ حملہ کس نے اور کیوں کروایا ؟ لیکن میرے نزدیک یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ دہشت گرد جی ایچ کیو پر حملہ کرنے میں کامیاب کیوں ہونے دیئے گئے ؟ آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ آسان ہے اور نہ ہی بچوں کا کھیل ِ کیا قومی سلامتی پر مامور آنکھیں سو رہی تھیں یا کیری لوگر بل کے شور کے بعد آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے؟ خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب پولیس نے آرمی ہیڈ کوارٹرز پر ممکنہ حملے کے بارے میں پندرہ جولائی کو ہی آگاہ کر دیا تھا ۔ تو کیا جی ایچ کیو پر حملے کا مطلب ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کی سو فیصد ناکامی کے سوا کیا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ؟ رحمٰن ملک صاحب سے کوئی پوچھے کہ اس حملے کا الزام بھارت پر لگانے سے کیا ان کے دامن سے یہ داغ مٹ سکتا ہے کہ بحیثیت سیکیورٹی ایڈوائزر بینظیر بھٹو کی جان بچانے میں ناکامی کے بعد اب بطور وزیر داخلہ بھی وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے؟ زرداری صاحب کی تو بات ہی نہ کریں ۔ یہ کیا کم ہے کہ اس منحوس سمے وہ اس ملک میں موجود تھے

اگر کوئی تعریف کے قابل ہے تو صرف وہ جوان ہیں جو دہشت گردوں کی راہ میں بارودی سرنگوں سے بھی خطرناک ثابت ہوئے ۔ تحسین کے قابل ہیں اور بلا شبہ ہیں آپریشن جانباز میں حصہ لینے والے کامانڈوز اور ان کا کمانڈنگ آفیسر جنہوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس آپریشن کو کامیابی سے مکمل کر کے سیاسی اور فوجی قیادت کو دہشت گردوں کی بلیک میلنگ سے بچا لیا ۔ انڈیا کی سیکیورٹی فورسز کو پچھلے سال ممبئے میں ایسا ہی ایک آپریشن مکمل کرنے میں بہتر گھنٹے لگ گئے تھے۔

پاک فوج نے سوات میں آپریشن کے بعد ایک بار پھر ان عناصر کو بری طرح مایوس کیا ہے جو سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاک فوج کی آپریشنل اور پروفیشنل صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے ۔ امید ہے کہ دنیا کو اب یہ یقین آ گیا ہو گا کہ جب پاکستان کا آرمی چیف یہ کہتا ہے کہ “ہم ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحییت رکھتے ہیں“ تو اس کا مطلب واقعی یہی ہوتا ہے ۔

دہشت گردی کے مستقبل کے فیصلہ کن لمحات شائد اب آ ہی چکے ہیں ۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے نگہبانوں نے ایک بار پھر قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ پاکستان کا دفاع آہنی ہاتھوں میں ہے ۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ ان فیصلہ کن لمحات میں ہماری حکومت ڈبل سواری پر پابندی لگانے کے علاوہ بھی کچھ کر پائے گی!

Wednesday 7 October 2009

From Pakistan to Masaylstan

پاکستان سے مسائلستان تک


قائد اعظم نے جس خطہء ارض کو پاکستان بنایا تھا سیاستدانوں، مولویوں، جرنیلوں اور جاگیرداروں نے اسی پاک سر زمین کو مسائلستان بنا دیا ہے ِ پاکستان کو در پیش مسائل کی فہرست بنانے کے لئے آکسفورڈ یا ہارورڈ یونیورسٹی سے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ِ آپ آنکھیں بند کر کے جس برائی اور بیماری کا نام لیں گے وہ پاکستان میں موجود ہو گی ِ پیپلز پارٹی کے عہد حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا ِ لگتا ہے کہ آج پی پی پی کی ہی حکومت میں پاکستان کا نیا نام مسائلستان بھی رکھ دیا جائے گا ِ یوں سابقہ مرد اول اور موجودہ صدر مملکت پاکستان کے آخری صدر اور مسائلستان کے بانی کی حیثیت سے تاریخ میں امر ہو جائیں گے


معاشی اور سیاسی ماہر کے طور ہر اپنی پہچان بنانے کے لیے اصطلاحات اور مشکل الفاظ کی بھرمار سے پاکستان کو درپیش مسائل کی ایک لمبی بلکہ نہ ختم ہونے والی فہرست اور ان کے حل کے لئے مبہم اور ناقابل عمل تجاویز پر مشتمل ایک لمبی چوڑی اور بے مقصد رپورٹ بھی تیار کی جا سکتی ہے ِ ایسا کرنے سے وفاقی مشیر بننے یا زرداری صاحب کی قربت کے امکانات بھی خاصے روشن ہو سکتے ہیں کیونکہ آج کی تاریخ میں مشیر کا رتبہ وہی پا سکتا ہے جس کے اپنے آنکڑے صاف نہ ہوں اور قوم کو درپیش مسائل کے حل کو کھوج اس سے بہتر کون لگا سکتا ہے جو قوم کی خدمت کے درد میں اپنی بیوی کے قاتلوں کا کھرا پہچاننا بھول جائے ِ تو صاحبو، اگر پاکستان کے ٹھیکیداروں ، چوہدریوں ، شریفوں، اور زرداریوں کی بجائے ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسئلہ صرف ایک ہے ِ صرف ایک
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم کا مسئلہ صرف ایک کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں فیملی پلاننگ والے بھی دو بچوں کی چھوٹ تو دیتے ہی ہیں مختصر ترین الفاظ میں ہماری پرابلم صرف یہ ہے کہ ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جو ہمارے کرنے کا نہیں ہوتا اور جو کام ہمیں نہیں کرنا چاہیے وہ کام کرنے سے ہمیں امریکہ بھی نہیں روک سکتا ِ اب دیکھ لیں چوہدری آصف شریف صاحب صدر پاکستان بن بیٹھے ہیں ِ چوہدری نثار کو اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری ملی لیکن وہ نواز شریف کی ترجمانی پہ تلے بیٹھے ہیں ِ قوم کی اکثریت نواز شریف کو اپنا راہبر مانتی ہے اور نواز شریف صاحب کو بس اپنی باری کا انتظار ہے ِ امریکا میں ہمارا امریکی سفیر ان لوگوں کے پاسپورٹوں پر پاکستانی ویزے کے ٹھپے لگاتا ہے جنہیں ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں پاکستان کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں یعنی اوپر سے لے کر نیچے اور دائیں سے بائیں تک کوئی بھی تو نہیں جو اپنا کام کر رہا ہو ! ِ


یہ بیماری صرف خواص تک ہی محدود نہیں ِ ہم عوام بھی اسی کھاتے میں ہیںالیکشن کا وقت آتا ہے تو وہ آدمی جو ہمارے جوتوں کے قابل ہوتا ہے ہم اس کو ووٹ دے دیتے ہیں ِ ووٹ ڈالتے ہوئے ہماری نگاہیں اس کالے انگریز کو کھوج رہی ہوتی ہیں جو ہمیں ڈنڈے کے زور پر سیدھا رکھے ِ ہم لٹیروں سے تحفظ کی امید لگا لیتے ہیں ، ڈاکوؤں کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں ، چوروں کو اپنا راہبر بنا لیتے ہیں اور اپنی خراب قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں ، اپنی بداعمالیوں کے نتائج کا ذمہ دار کسی اور کو قرار دے کر اپنا جی ہلکا کر لیتے ہیں ِ بات وہیں پہ آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں اور اگر کچھ نہیں کرتے تو صرف وہ نہیں کرتے جو ہمیں کرنا چاہیے ِ اپنے فرض کی عدم ادائیگی اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہونا ہی ہمارا اصل مسئلہ بلکہ ہمارے مسائل کی ماں بھی ہے


ہم بھی کتنی عجیب قوم ہیں ِ ہم خواب تو دیکھتے ہیں دنیا پر حکمرانی کے لیکن اپنا کام خود کرتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے ِ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ زرداری صاحب اس قوم پر احسان فرما کر پاکستان کا نام تبدیل کر کے مسائلستان رکھ دیں یا پھر امریکہ بہادر سے التجا کریں کہ وہ ہم پر براہ راست اپنی حکومت قائم کر لے
A blog by : Qasir Chaudhry

Sunday 27 September 2009

خادم اعلٰی، فوڈ انسپکٹری سے جمعداری تک




شہباز شریف آج کل پنجاب کے اکلوتے وزیر اعلٰی اور تہمینہ درانی کے انسٹھ سالہ سرتاج ہیں ِ خیر سرتاج تو وہ اپنی کزن نصرت شہباز کے بھی ہیں بلکہ پہلے سے ہیں ِ شادی کے وقت اگر نصرت شہباز نے یہ سوچا تھا کہ شہباز صرف ان کے ہی سرتاج رہیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے غلط سوچا تھا ِ چونکہ ہمیں شہباز شریف سے کوئی خوش فہمی نہیں ہے اس لئے ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں صرف پنجاب کے ہی وزیر اعلٰی نہیں رہیں گے ِ یہ بات شہباز شریف بھی جانتے ہیں اس لئے لاٹھی چارج کی بارش میں بھوکے عوام میں پوری عزت سے آٹا بانٹتے وقت وہ خونی انقلاب کے قدموں کی آہٹ بھی سنتے رہے ِ خونی انقلاب کے قدموں کی چاپ بھوکے جسموں پر پڑنے والی لاٹھیوں کی آواز سے مہیب اور خوفناک شائد نہ ہی ہو

شہباز شریف چاہتے ہیں کہ عوام انہیں پنجاب کا وزیر اعلٰی نہیں بلکہ اپنا خادم اعلٰی سمجھیں ِ اب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ حاکم وقت کی خواہش بھی دوسرے لفظوں میں ایک حکم ہی ہوتی ہے ِ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنے ہی ٹیکس کے پیسے سے، سستا آٹا ڈنڈوں اور دھکوں کے ساتھ حاصل کر کے عوام کو یقین ہو گیا کہ میاں صاحب واقعی بڑے خادم صاحب ہیں ! دوسری طرف پنجاب کے وزیروں کی فوج اور نوکر شاہی کے جرنیلوں نے بھی میاں صاحب کو خادم اعلٰی مان لیا ہے ِ ہاں، کچھ سر پھرے البتہ ہیں جو ابھی تک نہیں مانے ِ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، وہ بھی عنقریب مان جائیں گے، ورنہ میاں صاحب منوانا اچھی طرح جانتے ہیں


اگرچہ شہباز شریف دو خواتین کے شوہر ہیں مگر خدمت کے میدان میں وہ اپنی ‘سوکن‘ برداشت نہیں کر سکتے ِ چنانچہ صوبائی کابینہ کے معزز خدام صاحبان پی سی ہوٹل میں اس انتظار میں ہیں کہ کب بڑے خادم صاحب ان کے حصے کی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں ِ لیکن میاں صاحب کو پنجاب کی فوڈ انسپکٹری کچھ اتنی اچھی لگی کہ وہ بقایا خدمات بھول ہی گئے ِ کچھ دن پہلے جب انہیں یاد آیا کہ لاہور کے خاکروب سالانہ ایک ارب روپے کی تنخواہ ڈکار جاتے ہیں تو میرے دل میں یہ امید جاگ اٹھی ہے کہ اب میاں صاحب خاکروبوں کے چوہدری بن کر سیوا کیا کریں گے ِ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اصل خطرہ اس بات سے ہے کہ وہ لاہور کو ایران کے شہر مشہد کی طرح صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں ِ سالوں پہلے گجرات کے چوہدریوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ گجرات کو پیرس بنا دیں گے ِ آج حال یہ ہے کہ اگر کوئی بارش کے بعد گلیوں میں کشتی چلانے کا دھندا شروع کر دے تو بذات خود گجرات کا چوہدری بن جائے

کیا آپ کبھی ایسے بچے سے ملے ہیں جو بیک وقت ڈاکٹر، مریض، پروفیسر، وکیل، سائنسدان اور فوجی بننا چاہتا ہو

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اللہ کی رضا اور شاہ عبد اللہ کی مدد سے وزیر اعلٰی بننے کے بعد میاں صاحب اپنی باقی خواہشیں بھی پوری کرنا چاہتے ہیں